ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کا کہنا ہے کہ عقل ونقل کے تعارض اور باہمی کشمکش میں امام ابن تیمیہ ﷫ کا کیا موقف ہے؟ اس بارے اگر وضاحت ہو جائے تو ایک نیا تںاظر بھی سامنے آ جائے گا۔ در اصل زاہد مغل صاحب، عمار خان ناصر صاحب اور عثمان رمزی صاحب متکلمین کے حوالے سے ایک بحث شروع کیے ہوئے ہیں کہ عقل ونقل کی کشمکش میں متکلمین یا خاص طور اشاعرہ کا موقف کیا رہا ہے۔ میں نے ابھی ان تمام حضرات کی یہ بحث مکمل طور نہیں پڑھی ہے۔ لہذا یہ سلسلہ ہائے مضامین اس جاری بحث پر کوئی تبصرہ نہیں بلکہ محض امام ابن تیمیہ ﷫ کے موقف کی وضاحت ہے، انہی کی زبانی۔ البتہ انداز کلام جدلی ہو گا، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ امام ابن تیمیہ ﷫ یہ سب مباحث ایک خاص دور میں کر رہے تھے کہ جس کی فضا ہی جدلی تھی۔

امام ابن تیمیہ ﷫ نے نقل اور عقل کی کشمکش یا وحی اور عقل کے تعارض پر مفصل گفتگو اپنی کتاب ”درء تعارض العقل والنقل“ میں کی ہے یعنی عقل اور نقل میں تعارض کو دفع کرنا۔ اس کتاب کا ایک اور معروف نام ”موافقة صريح المعقول لصحيح المنقول“ یعنی عقل صریح کی نقل صحیح کے ساتھ موافقت بھی ہے۔ یہ کتاب گیارہ جلدوں میں الدکتور محمد رشاد سالم کی تحقیق کے ساتھ پبلش ہوئی ہے جس میں ایک جلد فہارس پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا بڑا موضوع ”قانون کلی“ کا رد ہے کہ جسے مسلمان فلاسفہ تو ”قانون کلی“ کہتے ہیں جبکہ متکلمین ”قانون تاویل“ کہتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ اس کتاب میں نہ صرف فلاسفہ اور متکلمین کے عقلی اصولوں کا رد کرتے ہیں بلکہ اس کے متبادل کے طور ایک پورا نظام فکر بھی دیتے ہیں اور یہ دعوی بھی نہیں کرتے کہ وہ اس نظام کے واضع ہیں۔ بلکہ وہ اس نظام فکر کو سلف صالحین سے ثابت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسے سلفی اسکول آف تھاٹ کہا جاتا ہے۔

کتاب کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے کہ امام ابن تیمیہ اپنے دور تک عقل ونقل کے باہمی تعارض اور کشمکش کے حوالے سے موجود بیانیوں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ سب بدعتی بیانیے ہیں۔ وہ انہیں اس لیے بدعتی بیانیے کہتے ہیں کہ ان کے بقول سنت کا بیانیہ، سلف کا بیانیہ ہے جو وہ پیش کر رہے ہیں جبکہ ان سب بیانیوں میں سے کسی ایک بیانیے کی بھی سلف سے نسبت ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کہ سلف صالحین نے نہ تو اس طرح کے عقلی اصول بیان کیے ہیں اور نہ ہی اس طرح کلامی انداز میں بحث کی ہے۔ امام ابن تیمیہ کے بقول سلفی بیانیہ جن بنیادوں پر کھڑا ہے، وہ قرآنی اصول ہیں جو کہ پانچ ہیں؛ پہلا القول على الله بغير علم یعنی اللہ پر وحی کے علم کے بغیر کوئی بات کہنا، دوسرا قول غير الحق یعنی وحی سے حق وثابت شدہ کے خلاف بات کہنا، تیسرا الجدل بغير علم یعنی وحی کے علم کو بنیاد بنائے بغیر مجادلہ کرنا، چوتھا الجدل في آيات الله یعنی اللہ کی آیات کو مجادلے کا میدان بنانا، اور پانچواں التفرق والاختلاف یعنی امت میں علمی تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا۔ تو عقل ونقل کے تعارض میں فیصلہ ان پانچ بنیادی اصولوں سے ہو گا۔ تو جو بیانیہ ان پانچ بنیادی اصولوں کی روشنی میں مرتب ہوا ہے تو وہ سلف کا نظام فکر ہے۔ اور جو بیانیہ ان پانچ اصولوں کی روشنی میں پروان نہیں چڑھا ہے، وہ بدعتی بیانیہ ہے۔

امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ عقل ونقل کے تعارض اور کشمکش کے حوالے سے بنیادی بیانیے دو ہی ہیں؛ ”تبدیل کا بیانیہ“ اور ”تجہیل کا بیانیہ“۔ تبدیل کے بیانیے سے مزید دو بیانیے نکلے ہیں؛ ایک “تخییل کا بیانیہ” ہے اور دوسرا ”تاویل کا بیانیہ“ ہے۔ تخییل کے بیانیے کا خلاصہ یہ ہے کہ وحی نے انسانوں کو جو خبر دی ہے، وہ ان کے خیال اور وہم کے مطابق دی ہے نہ کہ امر واقعہ کے مطابق۔ اس بیانیے کے امام ابن سینا ہیں۔ پھر بہت سے فلاسفہ نے ان کی اس میں اتباع کی ہے بلکہ صوفیاء میں سے بعض فلاسفہ جیسا کہ ابن عربی وغیرہ بھی اسی بیانیے پر ہیں۔ مثال کے طور ان کا کہنا یہ ہے کہ وحی کے نزول کے زمانے میں لوگوں کا اللہ کے بارے تصور تھا کہ اس کا کوئی تخت ہو گا جیسا کہ بادشاہ کا تخت ہوتا ہے لہذا اللہ عزوجل کے لیے وحی میں عرش کا اثبات کیا گیا جبکہ حقیقت میں اللہ کا کوئی عرش نہیں ہے۔ اور لوگوں کے خدا کے بارے تصور کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ اثبات مصلحتا ہوا ہے تا کہ لوگوں میں خدا کے تصور سے وحشت پیدا نہ ہو بلکہ وہ ان کے وہم اور خیال کے مطابق ہو تا کہ انہیں وحی کی خبر سے مانوسیت پیدا ہو۔ پھر اس گروہ کا اس میں اختلاف ہو گیا کہ نبی کو وحی کی خبر کی حقیقت کا علم تھا یا نہیں۔ تو بعض نے کہا کہ نبی کو حقیقت کا علم تھا لیکن نبی نے بھی مصلحتا وحی کی خبر کے ظاہر کو ہی جاری کیا تا کہ لوگ خدا کا انکار نہ کر دیں۔ جبکہ بعض کا کہنا یہ ہے کہ نبی کو وحی کی خبر کی حقیقت کا علم ہی نہیں تھا کیونکہ اشیاء کی حقیقت کی تلاش نبی کا مقصد اور میدان نہیں ہے یعنی نبی فلسفی نہیں ہوتا اور یہ فلسفے کا موضوع ہے نہ کہ نبوت کا۔ لہذا وحی کی خبر کی حقیقت کا علم ماہر فلاسفہ کو حاصل ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو یہ بھی کہتے ہیں کہ ماہر فلسفی، نبی سے افضل ہے، اس معنی میں کہ وہ اشیاء کی حقیقت کا علم رکھتا ہے جبکہ نبی کے پاس محض خبر ہے اور اسے خود اس کی حقیقت کا علم نہیں۔ اور بعض وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ولی کامل، نبی سے افضل ہے کہ اسے کشف اور مشاہدے کے ذریعے وہی علم دیا گیا ہے جو فلاسفہ کو عقل کے ذریعے ملا ہے۔ فارابی نے ماہر فلسفی کو نبی پر ترجیح دی ہے اور ابن عربی نے کامل ولی کو نبی سے افضل کہا ہے کہ ان کے بقول یہ دونوں نبی سے زیادہ وحی کی خبر کی حقیقت کا علم رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کمال عقل یا کامل مشاہدے سے اشیاء کی حقیقت کا علم حاصل کر لیتے ہیں۔ اور یہ نقطہ نظر من جملہ باطنیہ، اسماعیلیہ، فارابی، ابن سینا، سہروردی، ابن رشد، ابن عربی، ابن سبعین اور ابن طفیل وغیرہ کا ہے۔

تو پہلے اسکول آف تھاٹ ”تبدیل کے بیانیے“ میں پہلا بیانیہ ”تخییل کا بیانیہ“ فلاسفہ کا ہے، بھلے وہ محض فلسفی ہوں جیسا کہ فارابی، ابن سینا، اخوان الصفا اور ابن رشد وغیرہ یا صوفیاء میں سے فلاسفہ کہ جنہیں متفلسفین کہا جاتا ہے یعنی تکلف سے فلسفی بننے اور کہلوانے والے جیسا کہ سہروردی، ابن عربی، ابن سبعین اور ابن طفیل وغیرہ۔ اسی اسکول آف تھاٹ ”تبدیل کے بیانیے“ میں دوسرا بیانیہ ”تاویل کا بیانیہ“ متکلمین کا ہے۔ متکلمین کے بیانیے کا خلاصہ یہ ہے کہ وحی کی خبر نے اپنی خبر میں لوگوں کے تخیل اور وہم کی بجائے حقیقت کے بیان کو ملحوظ رکھا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کیا، اس کا تعین ہماری عقل کرے گی۔ یہ گروہ وحی کی خبر میں متکلم کے مقصود تک پہنچنے کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ اصل اہمیت اس بات کو دیتا ہے کہ وحی کی خبر ان کے عقلی مسلمات کی فہرست کے مطابق اور موافق ہو جائے۔ معتزلہ، کلابیہ، کرامیہ اور اہل تشیع کے فِرَق یہی کام کرتے ہیں۔

دوسرا اسکول آف تھاٹ ”تجہیل کا بیانیہ“ ہے۔ ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ وحی کی خبر کے حقیقی معانی کوئی نہیں جانتا یہاں تک کہ رسول﷐ کے علم میں بھی نہیں تھے لہذا آپ ﷐ کی اخبار اگر عقلی مسلمات کے خلاف ہوں گی تو مردود ہوں گی جیسا کہ عذاب قبر، بعث بعد الموت، قیامت، آخرت، قیامت اور جنت جہنم کے بارے بہت سی اخبار ہیں جو عقل وسمجھ سے بالاتر ہیں۔ ان کے بقول وحی کی حقیقت اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور ان میں سے بعض کا کہنا یہ ہے کہ نبی وحی کی خبر کی حقیقت کو تو جانتا ہے لیکن اس حقیقت کو اس نے بیان نہیں کیا۔ اس اسکول آف تھاٹ کے امام، جہمیہ ہیں۔ پھر ان سے آگے کئی فرق نکلے ہیں جیسا کہ مفوضہ ہیں۔ تو یہ وہ تناظر ہے کہ جس میں امام صاحب تمام فِرَق اور ان کے ائمہ کے اعتقادات اور ان کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے اشاعرہ میں سے باقلانی، جوینی، رازی اور غزالی رحمہم اللہ کی طرف آتے ہیں اور ان کے بیان کیے گئے اس قانون یعنی ”قانونی کلی“ یا ”قانون تاویل“ کا رد کرتے ہیں۔

امام صاحب نے اس قانون سے جوینی، رازی اور غزالی﷭ کے رجوع کا بھی ذکر کیا ہے لہذا اسی لیے ان کا احترام سے ذکر بھی کرتے ہیں لیکن اس کے رد میں اس لیے شدت اور تفصیل اختیار کرتے ہیں کہ بنیادی طور یہ اشاعرہ کا دیا ہوا نظام فکر نہیں تھا بلکہ اشاعرہ نے اس نظام فکر کا بڑا حصہ فلاسفہ اسلام سے لیا تھا کہ جنہوں نے اسے یونانیوں سے لیا تھا۔ لہذا اس بڑے تناظر کا رد ضروری تھا کہ جس میں اشاعرہ کی ایک جماعت کی رائے وجود میں آ رہی تھی۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام ابو الحسن الاشعری یا متاخرین اشاعرہ کا یہ موقف نہیں تھا یعنی قانون ”کلی کے اثبات“ کا جیسا کہ قاضی ابن العربی نے امام غزالی﷫ کا شاگرد ہونے کے باوجود ان پر یہ نقد کیا کہ ان کے استاذ فلسفےکے رد میں اس میں گھس تو گئے لیکن نکل نہ سکے۔ تو یہ اشاعرہ کی ایک جماعت یعنی باقلانی، جوینی، رازی اور غزالی وغیرہ کا موقف تھا کہ جن کی بہر حال ایک علمی حیثیت مسلم تھی تو اس کا رد کرنا پڑا۔