بعض دوستوں نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا کوئی کلمہ گو کسی صورت کافر اور مشرک نہیں ہو سکتا اور آپ کا اس بارے کیا وہی موقف ہے، جو غامدی صاحب کا ہے؟جواب: کلمہ گو کا کافر اور مشرک ہونا ایک بات ہے اور کلمہ گو کو کافر اور مشرک کہنا دوسری بات ہے، دونوں میں فرق ہے۔ اور اس دوسرے عمل کو تکفیر کہتے ہیں یعنی کسی کو کافر ڈیکلیئر کرنا۔
ایک کلمہ گو کافر اور مشرک ہو سکتا ہے، قرآن کا بیان یہی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ انسانوں کی اکثریت اللہ پر ایمان بھی رکھتی ہے مگر اس ایمان کے ساتھ ساتھ وہ مشرک بھی ہیں۔ پس انسان بعض اوقات کفر اور ایمان یا کفر اور شرک کو جمع کر لیتا ہے۔ اور یہ عجیب نہیں ہے لیکن ہمیں حکم یہ ہے کہ ہم کسی کو کافر ڈیکلیئر کرنے میں حد درجہ احتیاط کریں کہ اس کی اجازت اضطرارا ًہے نہ کہ یہ کوئی دینی فریضہ ہے۔
ہم نے تکفیر کے موضوع پر اپنی کتاب میں اس بارے تفصیل سے لکھا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیانِ کفر اور تکفیر میں فرق ہے۔ بیانِ کفر واجب ہے جبکہ تکفیر ایک بوجھ ہے۔ بیانِ کفر یہ ہے کہ آپ کفریہ اور شرکیہ عقائد کو کفر اور شرک کہیں تو یہ اصول دین میں سے ہے۔ اور تکفیر یہ ہے کہ آپ کسی کے کفریہ اور شرکیہ عقائد کی بنا پر اسے کافر، مشرک اور مرتد کہیں اور پھر اس کے اثرات بھی مرتب کریں کہ اس کا نکاح ختم ہو گیا، وراثت جاری نہ ہو گی۔
اسی طرح تکفیر یا تو معین کی ہوتی ہے یا غیر معین کی۔ معین کی تکفیر سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی فرد اور گروہ کا نام لے کر تکفیر کریں مثلاً یہ کہ زید کافر ہے یا اہل تشیع کافر ہیں، یا پارلیمنٹ کافر ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ اور اصولی بات یہ ہے کہ غیر معین کی تکفیر کی جا سکتی ہے بلکہ یہ شرعی فریضہ ہے۔ غیر معین کی تکفیر کی مثال یہ ہے کہ آپ یہ کہیں کہ جو یہ کہتا ہے کہ قرآن مجید کے دس پارے غائب ہو گئے، وہ کافر ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ خالق کا وجود اور مخلوق کاوجودایک ہی وجودہے،تووہ کافرہے۔
غیر معین کی تکفیر تو عبادت ہے کہ جب آپ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت یہ تکفیر کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ نے آیت پڑھی کہ جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو وہی کافر ہیں تو آپ نے تکفیر تو کر دی ہے۔ لیکن کسی معین شخص، گروہ اور جماعت کی نہیں بلکہ ایکس ۔وائے۔ زی کی تکفیر کی ہے۔ امام ابن تیمیہ کے فتاوی میں یا تو بیان ِکفر ہے یا غیر معین کی تکفیر ہے کہ جسے بعض لوگوں نے شدت پسندی سمجھ لیا حالانکہ وہ عین دینی فریضہ تھا۔
جہاں تک معین کی تکفیر کا معاملہ ہے تو اس بارے راقم کی رائے یہی ہے کہ اگر مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے علماء کا کسی معین شخص یا جماعت کی تکفیر پر اتفاق ہو جائے تو اسے کافر کہا جائے گا جیسا کہ غلام احمد قادیانی اور قادیانی گروہ ہیں۔ اور جن کی تکفیر کے بارے مسلمان علماء کا اختلاف ہو تو میں ذاتی طور ان کی تکفیر کا قائل نہیں ہوں۔
باقی یہ بات کہ عند اللہ، یعنی اللہ کے ہاں، کون کافر ہے کون نہیں، تو یہ قیامت والے دن ہی معلوم ہو گا۔ دنیا میں جنھیں کافر اور مشرک کہا جاتا ہے تو یہ ایک اجتہادی فیصلہ ہے کہ جس میں غلطی کا امکان ہے۔ واللہ اعلم۔