استقبال رمضان یعنی رمضان کا استقبال کرنا اللہ کے رسول ﷐ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ استقبال رمضان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی اس کے استقبال میں پٹاخے اور فائرنگ شروع کر دی جائے بلکہ اس کے استقبال کا مطلب یہ ہے کہ رمضان سے پہلے رمضان کی تیاری کی جائے، رمضان سے پہلے رمضان کی فکر جائے، رمضان سے پہلے رمضان گزارنے کی پلاننگ کی جائے۔

اللہ کے رسول ﷐ کے بارے میں روایات میں ملتا ہے کہ آپ رمضان کے مہینے کے بعد سب سے زیادہ روزے شعبان کے مہینے میں رکھتے تھے۔ اور جب صحابہ کرام﷡ نے آپ کی اتباع میں شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا شروع کر دیے تو آپ نے انھیں منع فرما دیا اور کہا کہ پندرہ شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو تا کہ رمضان کے روزوں، جو کہ فرض ہیں، میں کوئی کوتاہی اور سستی نہ ہو جائے۔ تو شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کا عمل یہ بتلاتا ہے کہ آپ ﷐ شعبان کا مہینہ رمضان کے استقبال اور تیاری میں گزارتے تھے۔

یہ بہت آسان فہم سی بات ہے کہ عید کا ایک دن ہے یا چلیں تین دن ہیں لیکن ہمارا پورا رمضان عید کی تیاریوں میں گزر جاتا ہے کہ عید کے دن یہ کھانا پکانا ہے، عید کے دن فلاں فلاں کے ہاں جانا ہے، عید کے دن کے لیے اپنے اور بچوں کے نئے کپڑے سلوانے اور جوتے خریدنے ہیں وغیرہ ۔ لیکن رمضان جو کہ پورا ایک مہینہ ہے، ہم اس کی پلاننگ ایک دن پہلے سے بھی نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص عید کی رات کو بچوں کے کپڑوں کی پلاننگ شروع کرے گا تو کیا عید والے دن اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنا پائے گا؟

اسی طرح اگر رمضان کی پہلی رات میں رمضان کی تیاری شروع کی تو پہلے دن کی سحری بھی فوت ہو جائے گی۔ اور رمضان اس طرح نہیں گزرے گا کہ جس سے آپ کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے۔ رمضان کے آنے پر دل میں خوشی کا پھوٹنا ایمان کی علامت ہے اور رمضان کے آنے پر اگر دل پر بوجھ محسوس ہو تو ایسے شخص کو اپنا ایمان ریوائز کرنا چاہیے۔ تو رمضان سے پہلے رمضان کی تیاری کا مطلب یہی ہے کہ آپ یہ پلاننگ کریں کہ آپ نے اس رمضان میں زیادہ اوقات کو عبادت، تلاوت، ذکر اذکار، اعتکاف، لیلۃ القدر کی تلاش وغیرہ میں گزارنا ہے۔

رمضان میں دنیا کے کام چھوڑنے نہیں ہیں بلکہ انھیں کم کر دینا ہے اور عبادت کے اوقات اور نیکی کے عمل کو بڑھانا ہے اور اسی کی پلاننگ کرنی ہے۔ بھئی، بہت سادہ ہے کہ سحری کے وقت سحری کرنے بیٹھو گے تو نفس وسوسہ ڈالے گا کہ بہت لمبا دن ہے، ڈبل شفٹ لگا لو۔ اور جب افطاری کرنے بیٹھو گے تو نفس دوبارہ وسوسہ ڈالے گا کہ اتنا لمبا دن بھوکے پیاسے رہے، لہذا ڈبل شفٹ لگا لو۔ تو عام دنوں میں آپ نے تین وقت کا کھانا کھایا اور رمضان میں چار وقت کا تو آپ اپنی کیا تربیت کریں گے؟ رمضان کا مقصد تو ضبط نفس یعنی سیلف کنٹرول ہے اور وہ تو فوت ہو گیا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ رمضان میں کھانا پینا بند کر دیں بلکہ یہ کہ کم کر دیں۔ اگر عام دنوں میں دو روٹی کھاتے ہیں تو رمضان میں ڈیڑھ کر دیں۔ اگر افطاری کے وقت پیاس کی شدت سے آپ نے سامنے پڑا روح افزا یا جام شیریں کا پورا جگ چڑھا لیا تو حرام تو کوئی بھی اسے نہیں کہے گا لیکن ایمان سے بتلائیں کہ کیا اس کے بعد آپ تراویح پڑھنے کے قابل رہیں گے؟ تراویح تو دور کی بات آپ اس کے بعد مغرب کی نماز بھی کھڑے ہو کر پڑھ لیں تو بڑی بات ہو گی۔

رمضان کے مہینے میں کھانے پینے سے منع نہیں کیا گیا لیکن یہ کہ رمضان کو کھانے پینے کا مہینہ بنا لینا تو یہ بھی غلط ہے، اس سے رمضان کا مقصد فوت ہو جائے گا یعنی ضبط نفس اور سیلف کنٹرول۔ کیا ایسا نہیں کہ پورے پاکستان میں گیارہ مہینوں میں اتنا سموسہ پکوڑا نہیں بنتا جتنا صرف ایک رمضان کے مہینے میں بنتا ہے؟ اتنا کھانے پینے کے بعد کیا ضبط نفس حاصل ہو گا یا کیا عبادت میں کیفیت حاصل ہو گی یا تراویح میں دل لگے گا؟

اتنا سموسہ پکوڑا کھانے کے بعد اگر کوئی آپ کو موٹیویٹ کر کے کہیں تراویح پر لے بھی آیا تو کبھی دائیں ٹانگ تو کبھی بائیں ٹانگ پر کھڑے ہو کر دو چار رکعتیں روتے روتے یا اونگھتے جاگتے پڑھ لیں گے لیکن اس سے کیا تربیت ہو گی؟ اس لیے رمضان میں اپنے کھانے پینے، اپنے اوقات، اپنی دنیاوی مصروفیات کو کنٹرول کریں، اور اسے کنٹرول کرنے کی سوچ بچار شعبان میں شروع کریں تو بس یہی رمضان گزارنے کا اچھا طریقہ ہے۔