دوست کا سوال ہے کہ میں حافظ قرآن نہیں ہوں لیکن قیام اللیل میں لمبے قیام کو جی چاہتا ہے تو کیا میں تہجد کی نماز میں مصحف ہاتھ میں لے کر قرآن مجید کا پارہ تلاوت کر سکتا ہوں؟
جواب: شافعیہ اور حنابلہ کے ہاں معتمد قول یہی ہے کہ امام ہو یا مقتدی، وہ فرض میں بھی اور نفل نماز میں بھی، مصحف سے قراءت کر سکتے ہیں۔ مالکیہ نے فرض اور نفل میں تقسیم کی ہے اور فرض میں مصحف سے قراءت کو مکروہ کہا ہے جبکہ نوافل میں اسے جائز کہا ہے۔
اس کے برعکس حنفیہ میں سے قاضی ابو یوسف اور امام محمد کا فتوی یہ ہے کہ فرض ہوں یا نفل، مصحف سے قراءت کرنا مکروہ ہے لیکن اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ البتہ حنفیہ کے ہاں مفتی بہ قول یہ ہے کہ مصحف سے قراءت کرنا ”عمل کثیر“ ہے لہذا اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور یہی امام ابو حنیفہ کی رائے ہے۔
میرا ذاتی رجحان مالکیہ کی رائے کی طرف ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ کے غلام ذکوان کے بارے مروی ہے کہ وہ رمضان میں تراویح کی نماز میں مصحف سے امامت کرواتے تھے۔ تو نوافل یعنی تہجد اور تراویح وغیرہ میں مصحف سے دیکھ کر پڑھنا جائز ہے البتہ اس میں بھی افضل یہی ہے کہ زبانی پڑھا جائے کہ یہی رسول اللہ کا اسوہ ہے۔
جہاں تک تراویح کی نماز میں مصحف کھول کر امام صاحب کی تلاوت سننے کا مسئلہ ہے تو اگر تو اس سے مقصود نماز میں توجہ کا حصول ہو تو حرج نہیں کہ قرآن مجید میں دیکھنا بھی عبادت ہے۔ لیکن ہماری رائے میں موبائل فون، مصحف کے حکم میں نہیں ہے لہذا اس سے اجتناب کرے۔ تو قیام کی حالت میں پاکٹ سائز مصحف ہاتھ میں لے سکتا ہے جبکہ رکوع اور سجدہ میں جاتے وقت اپنے سامنے کی پاکٹ میں رکھ لے یا سائیڈ ٹیبل پر رکھ دے۔ اس طرح ایک عام شخص بھی تہجد میں لمبا قیام کر سکتا ہے یا قرآن مجید مکمل کر سکتا ہے۔