قاری حنیف ڈار کو ہر سال یہ شوق چراتا ہے کہ وہ یہ پوسٹ لگائیں کہ حالت حیض میں عورتوں کو روزہ رکھنا چاہیے۔ قاری حنیف ڈار کا کہنا ہے کہ حیض چونکہ بیماری ہی کی ایک قسم ہے لہذا جس طرح بیمار شخص کو یہ رخصت ہے کہ وہ دوسرے دنوں میں قضا کر لے تو اسی طرح حائضہ کو بھی یہ رخصت ہے کہ وہ دوسرے دنوں میں قضا کر لے۔ اور جس طرح بیمار اور مسافر اگر چاہے تو روزہ رکھ سکتے ہیں، اسی طرح حائضہ بھی اگر چاہے تو روزہ رکھ سکتی ہے۔
تو ان کی دلیل پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم ان کا مختصر سا تعارف اپنے قارئین کو کروا دیں کہ یہ حضرت فیس بک کے مفتی عبد القوی صاحب ہیں۔ تو ایک تو ان کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے حائضہ کو مریض کی ایک قسم بنایا ہے اور اس پر مریض کا حکم لگایا ہے۔ اور ان کی دوسری دلیل صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جس میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ “قضاء” کا معنی کسی شرعی فعل کو اس کے وقت میں ادا کرنا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
ان کا کہنا یہ ہے کہ قضاء کا معنی یہ کرنا کہ کسی شرعی فعل کو اس کے وقت کے بعد ادا کرنا تو یہ غلط فہمی فقہاء کی پیدا کردہ ہے۔ قرآن مجید میں لفظ قضاء اس معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔
جہاں تک ان لوگوں کی پہلی دلیل کا تعلق ہے تو وہ ایک حد تک درست ہے کہ حائضہ، مریض ہی کی ایک قسم ہے لیکن حائضہ صرف مریض نہیں ہے بلکہ ناپاکی کی حالت میں ہے جیسا کہ سنن ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ میں حائضہ عورت اور جنبی مرد کے لیے مسجد میں جانا جائز قرار نہیں دیتا۔ اس پر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حالت جنابت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے تو حالت حیض میں کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنابت کی ناپاکی عارضی اور اختیاری ہے کہ میں جب چاہوں، غسل کے ذریعے دور کر سکتا ہوں۔ اس کے برعکس حیض کی ناپاکی مستقل اور جبری ہے کہ جس میں عورت کے ارادے کا عمل دخل نہیں ہے۔
تو جنبی مرد کو مجبوری کی صورت میں سحری کرنے کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر وقت کم ہے تو وہ سحری کر لے اور پھر سحری کے بعد غسل کر لے اور نماز پڑھ لے۔ تو ایک بہت ہی تھوڑی سی مدت کے لیے اس کی جنابت کو بحالت مجبوری قبول کیا گیا ہے۔ ایسا کسی حدیث میں نہیں ہے کہ ایک جنبی مرد سارا دن حالت جنابت میں رہے اور روزے سے بھی رہے۔ اور حائضہ کا معاملہ تو یہی ہے کہ اسے سارا دن ناپاکی کے ساتھ روزہ رکھنا پڑے گا اور روزہ رکھنا عبادت ہے اور عبادت کے لیے طہارت یعنی پاک ہونا شرط ہے اور وہ یہاں مفقود ہے۔
جہاں تک حدیث کے الفاظ سے ان کے استدلال کا تعلق ہے تو یہ استدلال بھی کمزور ہے کہ سنن النسائی کی روایت کے الفاظ ہیں:
تو اس حدیث میں قضاء سے مراد روزے کی طہر یعنی پاکی کی حالت میں ادائیگی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ عورت جب حالت حیض میں ہوتی ہے تو نہ روزہ رکھتی ہے اور نہ نماز پڑھتی ہے۔
پھر قرآن مجید نے حیض کے دنوں کو ”اذی“ بھی کہا ہے کہ وہ ناپاکی کے دن تو ہیں ہی لیکن عورت کے لیے تکلیف اور اذیت کے دن بھی ہیں۔ تو عورتیں ان دنوں میں نہ صرف جسمانی طور کمزور ہوتی ہیں بلکہ جذباتی طور بھی کمزور ہو جاتی ہیں کہ ہارمونل چینجز کی وجہ سے ان میں بہت تیزی سے موڈ سونگز آتے جاتے ہیں۔ تو یہ مرض عام مرض کے جیسا نہیں ہے کہ جس میں روزہ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس مرض میں روزہ رکھوانا مکلف پر ایسا بوجھ لادنا ہے کہ جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا ہے۔ تو یہ استدلال بہت ہی کمزور استدلال ہے اور امت کے اجماع کے بھی خلاف ہے۔ پس حائضہ عورت کے لیے حالت حیض میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور پاکی کے دنوں میں اس کی قضاء ادا کرے گی۔