بعض دوست پوچھ رہے ہیں کہ وہ گھر میں جمعہ کی نماز کروانا چاہتے ہیں کہ مساجد میں جانے سے منع کیا گیا ہے تو کیا یہ درست ہے؟

جواب: مجھے نہیں معلوم کہ سندھ اور خیبر پختون خواہ میں مساجد کی کیا صورت حال ہے، کیا انہیں جمعہ کی نماز کے لیے بند کر دیا گیا ہے، یا وہاں بھی پنجاب کی طرح کی صورت حال ہے کہ مساجد کھلی ہیں لیکن وہاں جماعت اور جمعہ کی نماز میں شرکت کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی یا جمعہ اور جماعت کی نماز کو محدود رکھنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ واقعاتی صورت حال تو مقامی لوگ بہتر جانتے ہیں۔

البتہ جہاں تک ان حالات میں گھر میں جمعہ کی نماز کروانے کا مسئلہ ہے تو مجھے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اگر تو آپ کے علاقے میں مساجد بند ہیں اور آپ اکیلے گھر والے ہیں تو گھر میں ظہر کی نماز با جماعت کروائیں نہ کہ جمعہ کی نماز۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کا اصل مقصد اجتماعیت کا حصول ہے جو ایک گھر میں مفقود ہے کہ گھر والے تو ہر وقت گھر میں جمع ہوتے ہی ہیں۔ البتہ دو تین گھروں سے مل کر کچھ حضرات کسی ایک گھر کے لان، صحن یا چھت وغیرہ میں جمع ہو جائیں، ایک صاحب دس منٹ کا مختصر خطبہ دیں، اس کے بعد دس منٹ کی جماعت کروا لیں، تو اس طرح سے جمعہ کی ادائیگی میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی صورت حال میں جمعہ کی نماز گھر پر ادا کر سکتے ہیں جبکہ علاقے کی مساجد بند ہوں۔

اور جن علاقوں میں مساجد کھلی ہیں اور جمعہ کی نماز ہو رہی ہے، وہاں ائمہ اور خطباء کو چاہیے کہ مختصر ترین خطبہ دیں، مثلا دس منٹس سے زیادہ خطبہ نہ ہو کہ ویسے بھی رسول اللہ ﷐ کا خطبہ اتنے ہی وقت کے لیے ہوتا تھا، یہ گھنٹوں خطبے دینے کا رواج بہت بعد میں عام ہوا ہے۔ تو دس منٹس کا خطبہ ہو اور دس منٹس کی نماز۔ اگر خوف نہیں ہے تو خطبہ اور نماز دونوں میں شامل ہو جائیں۔ اور اگر خوف کے حال میں ہیں تو صرف نماز میں شامل ۔ہو جائیں، آپ کی جمعہ کی نماز ادا ہو جائے گی۔ اور جن علاقوں میں مساجد کھلی ہیں لیکن آپ بیماری مثلا نزلہ زکام کھانسی، بڑھاپے یا مرض لاحق ہونے کے خوف کی وجہ سے گھر پر نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو ظہر کی نماز ادا کریں۔ واللہ اعلم بالصواب