دوست کا سوال ہے کہ بعض روایات میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی جبکہ بعض روایات میں مجذوم سے بھاگنے کا حکم ہے تو یہ کیا معاملہ ہے؟ جواب: امر واقعہ یہی ہے کہ بہت سی احادیث کا معنی ومفہوم کورونا کی وبائی مرض میں جس طرح سے سمجھ آ رہا ہے، پہلے نہیں سمجھ آ رہا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ان احادیث کا تعلق بعض مخصوص حالات یا کیفیات سے تھا لہذا جبکہ وہ حالات اور کیفیات کا سامنا ہی نہیں تھا تو وہ احادیث بھی صحیح طور سمجھ نہ آ پاتی تھیں جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ جس علاقے میں طاعون پھیل جائے، اس میں نہ جاؤ۔ اور دوسری روایات میں ہے کہ جو اس علاقے میں ہے، وہ وہاں سے باہر نہ نکلے۔ تو اب اکثر ممالک نے اپنے بارڈرز کورونا مریضوں کے لیے بند کر لیے ہیں کیونکہ وباء کے علاقے سے نکلنے والا غیر وبائی علاقوں کے لیے تھریٹ بن سکتا ہے۔
تو مسند احمد کی روایت میں ہے کہ مجذوم یعنی کوڑھ کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے کہ شیر سے بھاگتے ہو۔ اسی طرح صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ صحت مند اونٹوں کو بیمار اونٹوں کے ساتھ ایک ہی گھاٹ پر پانی مت پلاؤ۔ تو ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ امراض متعدی ہیں اور ان میں ممکن حد تک احتیاط کرنی چاہیے۔ البتہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی تو اس کا کیا معنی ہے۔ کبھی آپ غور کریں کہ ہارر موویز میں وکٹم کو فورا ہی کیوں نہیں مار دیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وکٹم کی فوری موت سےمووی دیکھنے والے میں وہ خوف پیدا نہیں ہوتا۔ تو وبائی مرض میں ہلاکتیں آہستہ آہستہ مسلسل ہونے کی وجہ سے موت کا خوف عام ہو جاتا ہے۔
یہ اصل میں کسی وبائی مرض کے پھیل جانے کی صورت میں پیدا ہونے والی اجتماعی نفسیاتی خوف کی کیفیت میں صادر ہونے والا ارشاد معلوم ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جس انفارمیشن فلو کی صورت میں احتیاطوں اور ہدایات کے انبار سے ایک عام آدمی کو واسطہ پڑ رہا ہے تو ایک بڑی تعداد پینک (panic) ہو رہی ہے یعنی موت کے خوف میں مبتلا ہو رہی ہے۔ معلوم نہیں انہیں کورونا ہے یا نہیں لیکن انہیں ذہنی مرض ضرور لاحق ہو چکا ہے۔ انگلینڈ، آسٹریلیا اور یورپین ممالک کے اکثر وبیشتر ویڈیو کلپس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ لوگ اشیائے خورونوش اور گروسری کی خریداری میں کس قدر پینک ہو رہے ہیں۔ مرض کا خوف بڑھ گیا تو ڈاکٹروں نے علاج چھوڑ دینا ہے اور ورثا نے تجہیز و تکفین۔ اور معاشرہ بیمار کو مجرم اور اچھوت کی طرح ٹریٹ کرے گا۔ اور اس خوف کو صرف عقیدے کی قوت سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
تو ان حالات میں جبکہ آپ نے ممکن احتیاط کر لی ہے، اس کے باوجود آپ کو بیماری لگ سکتی ہے۔ آپ جتنی احتیاط کر لیں گے، تقدیر بھی تو کوئی چیز ہے۔ تو ایسی احادیث کا مفہوم یہی ہے کہ بیماری اللہ کے حکم سے لگتی ہے، بھلے متعدی ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی جس نے اس بیماری سے مرنا ہے، اس نے مرنا ہے اور جس نے نہیں مرنا، اس نے نہیں مرنا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ احتیاط نہیں کرنی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ احتیاط کے نام پر ذہنی مریض نہیں بننا ہے۔ بیماری متعدی ہوتی ہے لیکن اللہ کے حکم سے متعدی ہوتی ہے۔ یہ عقیدہ ہو گا تو ذہنی مسائل پیدا نہ ہوں گے۔ بھائی مرنے سے بچنے کے لیے ضرور احتیاط کریں لیکن یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ مرنے کے لیے ہی تو پیدا ہوئے ہیں تو ہی اس احتیاط کا فائدہ ہو گا ورنہ اندیشہ ہے کہ یہ احتیاط کہیں او۔سی۔ڈی (OCD) نہ بن جائے۔