دوست کا سوال ہے کہ آن لائن فتوی ہو سکتا ہے تو باجماعت نماز کیوں نہیں ہو سکتی؟ جواب: سوشل میڈیا پر غامدی صاحب کے حوالے سے ایک رائے کافی گردش کر رہی ہے کہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ ایوان صدر سے جماعت کروائی جائے اور بقیہ لوگ گھروں میں اس جماعت کی نماز کی اقتداء کر لیں۔ اس رائے پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔ بہر حال ابھی ہمارے سامنے غامدی صاحب کا فتوی نہیں آیا ہے۔ جہاں تک نفس مسئلہ کی بات ہے توآن لائن جماعت کی نماز درست نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت، جمع ہونے سے ہے اور یہی جماعت کی نماز کا مقصد بھی ہے یعنی مسلمانوں کا اجتماع۔ تو جماعت ایک اجتماعی عبادت ہے۔ اور اس عبادت میں اصلا مقصود اجتماع ہے اور اسی لیے تو اسے جماعت کہتے ہیں۔ اور اجتماع اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ امام اور مقتدی ایک جگہ میں فزیکلی جمع ہوں مثلا مسجد میں۔ تو اگر امام مسجد میں ہے اور مقتدی مسجد سے باہر سڑک پر نماز پڑھ رہا ہے جبکہ مسجد میں خالی جگہ موجود ہے تو اس کی باجماعت نماز نہ ہو گی کیونکہ وہ اس اجتماع کا حصہ نہیں ہے۔ اور اگر مسجد میں جگہ نہیں رہی یعنی مسجد بھر چکی اور مقتدی باہر سڑک پر نماز پڑھ لیتا ہے جبکہ صفیں متصل ہوں تو اس کی باجماعت نماز ہو جاتی ہے کیونکہ اس صورت وہ اس اجتماع کا حصہ بن جاتا ہے۔

تو فقہاء کے نزدیک اصل سوال یہ پیش نظر رہا کہ جماعت کی نماز میں کس کو اجتماع حاصل ہوا اور کس کو نہیں۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ اگر مسجد سے ملحق گھر میں نماز پڑھ لی جائے کہ جہاں امام کی آواز آ رہی ہو تو کیا ایسے شخص کو گھر میں ہی جماعت کی نماز حاصل ہو جاتی ہے یا نہیں؟ تو شوافع اور امام احمد کے نزدیک اسے جماعت کی نماز حاصل نہیں ہوتی جبکہ امام مالک کے نزدیک اسے جماعت کی نماز حاصل ہو جاتی ہے البتہ وہ کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز حاصل نہیں ہوتی۔ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک جماعت اور جمعہ دونوں نمازیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ لیکن فقہاء کا یہ اختلاف مسجد سے ملحق گھر کے بارے میں ہے۔

اور اس اختلاف کی وجہ بھی یہی ہے کہ کیا مسجد سے ملحق گھر میں ہونے سے اسے اجتماع حاصل ہو گا یا نہیں؟ ہماری نظر میں نہیں ہو گا اور اس مسئلے میں راجح قول یہی ہے کہ باجماعت نماز انہی مقتدیوں کی ہے جو اجتماع میں فزیکلی موجود ہوں کہ جنہیں لغوی اور عرفی طور کسی اجتماع کا حصہ سمجھا جاتا ہو جبکہ مسجد سے ملحق گھر کو لغوی اور عرفی طور مسجد کے اجتماع کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ تو ان حالات میں آن لائن جماعت کی نماز کروانے کی بجائے گھروں میں جماعت کروائی جائے۔ اور اب جبکہ حکومت پنجاب نے چودہ دنوں کے لیے لاک ڈاون کا اعلان کر دیا ہے تو گھر میں جماعت کی نماز کروانا ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب