بعض دوستوں نے یہ سوال پیدا کیا ہے کہ اگر کورونا وائرس کے مریض کی وفات ہو جائے اور میت کو غسل دینے یا اس کے کفن دفن یا نماز جنازہ پڑھنے سے وائرس کے پھیلنے کا امکان غالب ہو تو پھر کیا میت کو بغیر نماز جنازہ یا کفن دفن کے جلایا جا سکتا ہے؟

جواب: یہاں کئی ایک سوالات جمع ہیں۔ پہلا سوال تو میت کو غسل دینے کا ہے۔ میت کو غسل دینا واجب اور لازم ہے۔ لیکن اگر غسل دینے سے غسل دینے والوں میں وائرس پھیلنے کا امکان غالب ہو تو غسل کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ اور ایبولا وائرس کے مسئلے میں مجمع الفقہ الاسلامی کی ایک قرارداد کے مطابق یہ اجتماعی فتوی سامنے آیا کہ میت کو نمائشی غسل دے دیا جائے جیسا کہ اس پر پانی کا چھڑکاؤ کر دیا جائے یا تیمم کروا دیا جائے۔ تو اگر غسل ممکن نہیں ہے تو تیمم کروا دیں۔ اور اگر تیمم بھی ممکن نہیں ہے تو پانی چھڑک دیں۔ اور اتنا تو کم از کم ممکن ہے کہ میت کو مرض الموت میں ہی آپ نے کسی محفوظ لباس میں ڈھانپا ہو گا جیسا کہ بعض تصاویر میں دیکھنے میں آیا ہے۔

دوسرا مسئلہ نماز جنازہ کا ہے۔ تو نماز جنازہ میت کو سامنے رکھ کر پڑھنا چاہیے۔ تو یہ ممکن ہے کہ شیشے کے ایک ہال میں میت موجود ہو اور اسے سامنے رکھ کر نماز جنازہ پڑھ لی جائے یا کم از کم شیشے کی دیوار ہو کہ جس کے اس پار میت ہو اور ادھر نمازی ہوں۔ اور ہسپتال میں ایسی سہولت بالکل میسر ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو نماز جنازہ تو غائبانہ بھی پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ آپ ﷐ نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی تھی لہذا میت کی نماز جنازہ تو ہو گی۔ اور ایک سے زیادہ میتوں کی ایک ساتھ نماز جنازہ بھی پڑھی جا سکتی ہے۔

جہاں تک تدفین کا معاملہ ہے تو دین اسلام میں اصل حکم میت کو دفنانے کا ہی ہے۔ اور ایک قبر میں ایک سے زائد میتوں کی تدفین جائز ہے جیسا کہ احد کے شہداء میں سے کئی ایک کو ایک قبر میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ جہاں میت کو جلانے کی بات ہے تو یہ شرعا جائز نہیں ہے کہ احادیث میں ہے کہ میت کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے جیسا کہ زندہ کی ہڈی توڑنا ہے لہذا میت کو جلانا ایسا ہی ہے جیسا کہ زندہ کو جلانا۔ اور روایات میں میت کی قبر پر چلنے پھرنے اور بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے تو یہ سب احکامات بھی میت کی حرمت کو واضح کرتے ہیں۔ اور جلانا میت کی بے حرمتی ہے لہذا کسی صورت جائز نہیں ہے۔

تو جب تک میت وینٹی لیٹر پر تھی تو بھی اس کے حقوق ادا ہو رہے تھے یعنی ہم نے اس کا حق علاج موخر نہیں کیا تھا بلکہ ڈاکٹرز کو کچھ مخصوص لباس مہیا کر دیے تھے کہ وہ کچھ احتیاطوں کے ساتھ مریضوں کا علاج کریں۔ تو یہی مریض جب وینٹی لیٹر سے بستر مرگ پر آ گیا تو صرف بستر بدل جانے سے تمام خدشات کیسے غالب امکانات میں بدل گئے! تو مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لاش جلانے کی ضرورت کیسے پیدا ہو سکتی ہے جبکہ اس کا علاج جاری رکھا گیا ہو۔ زیادہ مسئلہ ہے تو وہی ڈاکٹرز یا نرسز انہیں نمائشی غسل دے دیں جو ان کا علاج کر رہے تھے۔ اور پھر ہسپتال ہی کے ایک حصے میں اجتماعی جنازہ پڑھا کر انہیں ورثا کے حوالے کر دیا جائے۔ اور ورثا انہیں دفن کر دیں۔ اور اگر دفن کرنے سے وائرس پھیلنے کا غالب امکان ہو تو پھر میت کو پانی میں بہا دیں، لیکن جلانا جائز نہیں ہے۔ زمانہ ماضی میں لمبے سمندری سفر میں میت کی تدفین ایسے ہی ممکن رہی ہو گی اور فقہائے اربعہ کے نزدیک سمندر کی تدفین بھی تدفین ہی ہے۔