کافی سارے دوستوں نے سوال کیا ہے کہ رات گئے دس ساڑھے دس بجے کورونا وائرس کی وبا اور مصیبت میں اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں سے مساجد سے بے وقت اذانیں کہی گئی ہیں، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: اذان عبادات میں سے ہے اور عبادات کے بارے اصل اصول یہی ہے کہ ان کی اصل ممانعت ہے الا یہ کہ کوئی نص موجود ہے یعنی ہر عبادت منع ہے سوائے اس عبادت کے کہ جس کے کرنے کی کوئی دلیل موجود ہو۔

تو اس کے لیے دلیل چاہیے کہ رسول اللہ ﷐ کے زمانے میں دفع بلا کے لیے اذان کہی گئی ہو۔ یا حضرت عمر ﷜ کے زمانے میں جب طاعون کی وبا پھیلی تو اذان کہی گئی ہو۔ البتہ دفع بلا یعنی مصیبت کو ٹالنے کے لیے احادیث میں کچھ طریقے بتلائے گئے ہیں کہ جن میں اہم ترین صدقہ کرنا ہے کہ حدیث میں ہے کہ صدقہ مصیبت کو ٹال دیتا ہے۔ مزید دعا اور نماز کا اہتمام کر لیں کہ ان سے بھی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔

اگرچہ اذان کی عبادت نماز کے علاوہ بھی کچھ مواقع کے لیے ہے مثلا نومولود کے کان میں اذان کہنا یا مسحور یعنی جس پر سحر ہوا ہو، اس کے کان میں اذان کہنا کہ شیطان اذان کی آواز سن کر بھاگتا ہے، سنت سے ثابت ہے یا کم از کم اس عمل کی بنیاد ایک صریح سنت ہے لیکن دفع وبا کے لیے آذان کسی روایت سے ثابت نہیں ہے، نہ صراحتا اور نہ ہی استدلالا۔ اور مساجد میں پہلے ہی سے پنج وقتہ نمازوں کے لیے پانچ اذانیں ہو رہی ہیں تو وہ دفع بلا کے کافی ہیں۔ اگرمزید اذان کا اہتمام کرنا ہی ہے تو تہجد کی اذان کا اضافہ کر لیں کہ وہ سنت سے ثابت ہے۔ اور اگر فرض اور تہجد کی چھ آذانوں سے مصیبت نہیں ٹل رہی تو ساتویں اذان دینے کا کوئی معنی نہیں ہے۔