عبادت میں لذت، کثرتِ عبادت سے نہیں حرام کو چھوڑ دینے سے پیدا ہوتی ہے۔ جو حرام سے جتنا اجتناب کرتا جاتا ہے، اس کی عبادت کی کیفیات اتنی اچھی ہوتی چلی جاتی ہے۔ سو نیکیاں کرنے سے بہتر ہے کہ انسان ایک گناہ چھوڑ دے کہ گناہ چھوڑنے سے حاصل ہونے والی باطنی کیفیات، نیکی کرنے سے حاصل ہونے والی کیفیات سے بہت بلند اور زیادہ ہوتی ہیں۔
اور حرام صرف زنا کرنا ہی نہیں، بدنظری بھی ہے، بھلے سامنے کی عورت ہو یا فلم مووی، ڈرامہ اور اشتہار کی عورت ہو۔ ایک انسان ایک گناہ سے اجتناب کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اگر وہ اس جگہ سے گزر جائے کہ جہاں وہ گناہ ہوتا ہے تو اسے وحشت ہونے لگتی ہے، اور اگر اس شخص پر اس کی نظر پڑ جائے جو اس گناہ میں ڈوبا ہو تو اس کا جی متلانے لگتا ہے۔
ترک معصیت یعنی گناہ کو ترک کر دینا، یہ تزکیہ نفس کا اصل الاصول ہے۔ تزکیہ نفس کثرت وظائف کا نام نہیں کہ مووی دیکھتے ہوئے تسبیحات بھی پوری ہو رہی ہیں۔ ادھر دنیا جہاں کے پرینکس کی ویڈیوز دیکھ کر اٹھے اور ادھر مسجد میں نماز کے لیے چل دیے۔ ایسی نیکی سے کبھی بھی باطنی کیفیات حاصل نہیں ہوتیں البتہ فرض پورا ہو جاتا ہے۔ جسے احسان کی کیفیت حاصل کرنی ہے، اسے نیکی کرنے سے زیادہ گناہ چھوڑنے پر زور دینا ہو گا۔
اور گناہ تبھی چھوٹ پائے گا جب گناہ کا تصور درست ہو گا۔ کسی چیز کے گناہ ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مجھے اللہ سے غافل کر دے۔ سب سے بڑا گناہ اللہ کو بھول جانا ہے کہ جسے کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا۔ تو اپنا تصور گناہ درست رکھیں تو تزکیہ واحسان کی کیفیات حاصل ہوں گی۔ اور اللہ کو یاد رکھنے سے مراد تسبیح کے دانے پھیرنے نہیں بلکہ اللہ کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ یہی سب سے بڑا ذکر ہے یعنی ترک معصیت۔
اور کسی گناہ کو ترک کرنا چاہتے ہیں تو سب سے آسان رستہ یہی ہے کہ اس کی صحبت میں بیٹھنا شروع کر دیں کہ جسے وہ گناہ کیے ایک زمانہ بیت گیا ہو کہ جسے وہ گناہ ہی بھول گیا ہو کہ جس سے وہ گناہ ہوتا ہی نہ ہو۔ اور دوسرا رستہ مجاہدے والا ہے۔ اور مجاہدہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ضبط نفس یعنی سلیف کنٹرول ہو۔ اور ضبط نفس ایک ہی عبادت سے پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے روزہ رکھنا۔ تو کثرت سے روزے رکھیں، گناہ چھوٹ جائے گا۔