اہل حدیث دوست کثرت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ بریلوی امام کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ تو اس بارے اہل حدیث مسلک کے علماء کا اختلاف ہے؛ بعض جائز کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں جائز نہیں ہے۔ اسی طرح کا اختلاف بریلوی اور دیوبندی علماء کے فتاوی میں بھی مل جاتا ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے کے پیچھے یا اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے میں ایسا ہی اختلاف رکھتے ہیں کہ کچھ جائز کہتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے۔ اور کچھ بریلوی حضرات تو حرمین میں جا کر بھی جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔ اور علماء کے اس اختلاف پر ایک مستقل پوسٹ علیحدہ سے لگاؤں گا۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے کہ جسے آپ مسلمان سمجھتے ہوں، بس کافر کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے۔ تو نماز ہو جانا ایک علیحدہ بات ہے البتہ ہر شخص اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ ایسے شخص کو مستقل امام بنائے کہ جس سے اس کو ذہنی مناسبت ہو، اس کے اخلاق اچھے ہوں، عالم فاضل ہو، متقی پرہیز گار ہو، تلاوت عمدہ ہو، تو اس میں حرج نہیں ہے۔ اور اس بنیاد پر اگر کسی کو اپنے مسلک کی مسجد میں نماز پڑھنے میں رغبت ہے تو حرج نہیں ہے کہ اس سے اس کی نماز میں طمانینت اور سکون میں اضافہ ہو گا جو کہ دین میں مطلوب ہے۔

تو ترجیحا آپ اپنے مسلک کے امام کو ہی امام بنائیں کہ جہاں آپ کی ذہنی مناسبت ہے لیکن اگر نماز میں تاخیر ہو گئی ہے تو اب اکیلے پڑھنا بہتر ہے یا اکیلے پڑھنے کی بجائے دوسرے مسلک کی مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھ لیں۔ تو میرے نزدیک دوسرے مسلک کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ میرے محلے میں دو مسجدیں ہیں؛ ایک اہل حدیث کی اور دوسری بریلویوں کی۔ میں اہل حدیث کی مسجد میں نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اگر کبھی نماز لیٹ ہو جائے تو بریلوی مسجد میں پڑھ لیتا ہوں یعنی اکیلے پڑھنے سے جماعت کے ساتھ پڑھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔

اس بریلوی مسجد کے پہلے امام ڈیسینٹ تھے لیکن مسجد انتظامیہ نے انہیں فارغ کر دیا کیونکہ چاپلوس نہیں تھے۔ وہ جب ملتے اچھے سے ملتے۔ اپنے بچوں کو ہمارے اسکول میں داخل کروایا۔ مجھےاسکول فیس میں کمی کے لیے کہا تو میں نے بیگم صاحبہ سے درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ چالیس فی صد سے زائد کنسیشن نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ جتنی وہ کہہ رہے ہیں، اتنی کنسیشن کر دیں، باقی کا ڈیفرینس میں دے دیا کروں گا، ہیں تو امام مسجد، لیکن امام صاحب کو نہ بتلایے گا۔ میں ایک عالم دین ہو کر عالم دین کی ضرورت کا خیال نہ کروں گا تو پھر کون کرے گا؟ بھلے ہمارے مسلک کے نہ ہوں لیکن ہیں تو عالم دین ناں۔ ان کا پہلا تعارف یہ ہے کہ وہ دین کے عالم ہیں، دوسرا یہ ہے کہ وہ بریلوی عالم ہیں۔ اب مجھے یہی تھا کہ بیگم صاحبہ نے مجھ سے کیا لینا ہے، یہ تو صرف کہنے کا معاملہ ہے لیکن انہوں نے مہینے بعد ڈیفرینس کی رسید کاٹ کر ہاتھ میں پکڑا دی،

لیکن اب کے جو امام آئے ہیں، وہ تو لگتا ہے کہ مجھے مسجد سے بھگا کر ہی دم لیں گے۔ میں بغیر ٹوپی کے مسجد چلا جاتا ہوں، کبھی ٹوپی پہن بھی لیتا ہوں، لیکن اہتمام نہیں کرتا۔ اب نماز کی صفیں سیدھی ہوتیں اور ان کی جب نظر پڑنی تو یہ کہنا کہ ٹوپی کے بغیر نماز پڑھنا سنت کے خلاف ہے لیکن میری طرف دیکھ کر نہیں کہتے تھے۔ لیکن پھر بھی مجھے لگتا تھا کہ میری مذہبی آزادی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو سمجھایا اور مسجد میں ٹوپی پہن کر جانا شروع کر دیا۔ یہ مسئلہ تو حل ہوا لیکن انہیں سکون نہ آیا۔ اب جب ان کی سلام کے بعد نظر پڑنی کہ مرغا حاضر ہے تو یہ بیان شروع کر دیا کہ اللہ کے رسول ﷐ حاضر ناظر ہیں اور ثبوت میں موضوع اور من گھڑت روایت بیان کر دی۔ اب میں ایسی بات پر بیٹھتا نہیں ہوں، فورا اٹھ جاتا ہوں۔ اگر حدیث کا حوالہ مانگوں تو جھگڑا پڑے گا۔ لیکن بیٹھنے کو شرعا جائز نہیں سمجھتا۔ بھئی میں نماز پڑھنے آیا ہوں، جھوٹی روایتیں سننے نہیں۔

پچھلے امام صاحب سلام پھیرنے کے بعد فضائل کی روایات سناتے تھے تو ہم سن بھی لیتے تھے۔ تو یہ حکمت ہے ناں جو مسجد کے ائمہ کو سیکھنی چاہیے کہ لوگوں کو مسائل کی بجائے اخلاق کی تعلیم دو کہ جس کی ضرورت ہے۔ مسائل کا علم تو ان کے پاس پہلے بہت زیادہ ہے۔ اب میں بیٹے کو کہتا ہوں کہ مسجد اہل حدیث چلتے ہیں نماز پڑھنے۔ وہ کہتا ہے کہ نہیں یہاں بریلوی مسجد میں چلتے ہیں۔ اور اس کی دو وجوہات ہیں کہ بریلوی مسجد قریب ہے اور دوسرا وہ نماز جلدی پڑھا دیتے ہیں جبکہ اہل حدیث والے وقت لگاتے ہیں۔ تو وہ بچہ ہے، اسے ان دونوں چیزوں میں سہولت نظر آتی ہے۔ ابھی پچھلی مرتبہ اسے لے کر مسجد گیا ہوں تو امام صاحب نے سلام پھیرتے ہی کہا کہ کچھ لوگ نابالغ بچوں کو مسجد لے آتے ہیں اور صف میں کھڑا کر دیتے ہیں، اس طرح صف ٹوٹ جاتی ہے، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فقہی وشرعی مسئلہ ہے، شریعت ان کے باپ کی نہیں ہے، آگے تو مجھ سے سنا نہیں گیا۔ بس ہال میں نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ میں اور میرا بیٹا ہی مخاطب معلوم ہوتے ہیں۔

اب ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا آپ کو کون فتوی دے گا! تو بہت دفعہ وجہ مسلکی اختلاف نہیں ہوتا بلکہ امام مسجد کے اخلاق اور رویے ہی ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کے مسلکی تعصب اور مسلکی تبلیغ کے انداز کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھاگتے ہیں۔ تو ائمہ مساجد کی اخلاقی تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ بھئی آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کی مسجد میں دوسرے مسلک کے لوگ بھی آ کر نماز پڑھتے ہیں، بجائے اس کے کہ آپ ان کو بھگانے کی کوشش کریں۔ ایسے حالات میں محلے کا کوئی نمازی مجھ سے پوچھ لے گا کہ بریلوی مسجد میں نماز پڑھوں یا نہیں تو میں اسے کہہ دوں گا کہ نہ پڑھو۔ اب میں نے یہ کہا تو اس امام مسجد کی وجہ سے ہو گا لیکن آگے چلتے چلتے بات کیا بن جائے گی کہ جیسا میری عمومی رائے یہی ہے۔ فقہ کی قدیم کتابوں میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فتوی نقل ہو گیا ہے لیکن مستفتی کے سوالات نقل نہیں ہوئے۔ آج کل کے فتاوی میں پورا سوال نقل کیا جاتا ہے اور یہ اچھی بات ہے۔

تو بریلوی مدارس کے فارغ التحصیل بعض فاضلین اور اہل علم سے رابطہ ہے اور بہت اچھا رابطہ ہے۔ وہ بھی بہت قدر کرتے ہیں اور میں بھی ان کی دل سے قدر کرتا ہوں کہ اگر میں چلا رہا ہوں تو وہ بھی تو اختلاف کے باوجود تعلق چلا رہے ہیں۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں ان کا حوصلہ زیادہ ہے اور ان کی کانٹری بیوشن بھی کیونکہ ان کے علماء کے فتاوی ہمارے بارے میں زیادہ سخت ہیں جبکہ ہمارے علماء کے فتاوی ان کے بارے اتنے سخت نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ہمت کر کے تعلق جوڑتے ہیں اور نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔