علی مرزا نے اپنے مخالفین کے بارے جو بازاری زبان استعمال کی ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ اب اس کے بارے گفتگو کرتے ہوئے بہت سے لوگ اسی کے انداز میں اسے جواب دیتے ہیں۔ اس سے علی مرزا صاحب کے محبین کو دین یاد آ جاتا ہے اور اعلی اخلاق کی تعلیمات بھی۔ حالانکہ ہمارے دین نے جو اخلاقی نظام ہمیں دیا ہے، اس میں یہ بالکل جائز ہے کہ جب کوئی کسی کو برا بھلا کہے، لعن طعن کرے، گالی دے تو اسے جواب میں ویسا ہی برا بھلا کہنا، لعن طعن کرنا اور گالی دینا جائز ہے۔ تو شرافت سے پیش آنے کے دینی احکامات شریفوں کے بارے میں ہیں، بدمعاشوں کے بارے نہیں۔ تو جو لعن طعن کرتا ہے، گالم گلوچ کرتا ہے، اسے جوابا ایسا کرنا جائز ہے لیکن اتنا ہی جتنا کہ اس نے کیا ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ﴿الشورى: ۴۰﴾
برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔

اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے:

المستبان ما قالا، فعلى البادئ ما لم يعتدِ المظلوم
دو ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والے جو بھی انہوں نے کہا تو اس کا گناہ شروع کرنے والے پر ہے جب تک کہ مظلوم زیادتی نہ کرے۔

یعنی اس سے زیادہ برا بھلا نہ کہے کہ جتنا اس کو کہا گیا ہے۔ تو علی مرزا کے بارے یہ تاثر کہ وہ اس بارے مظلوم ہے، بالکل غلط ہے۔ اس نے اپنے مخالفین کے بارے جو زبان استعمال کی ہے، وہ فحش زبان ہے۔

علی مرزا سے ایک سوال ہوا ہے کہ آپ تابعین کو غلیظ اور جھڈو کہتے ہیں، علماء کو شیاطین کہتے ہیں، امام مالک کو ٹنی کہا ہے اور بزرگوں کے ختنے چیک کرنے کا کہتے ہیں تو آپ کے مخالفین کہتے ہیں کہ آپ یہ بازاری زبان کیوں استعمال کرتے ہیں؟ تو علی مرزا صاحب کا جواب ہے کہ ان کی باتوں کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بیان کیا جاتا ہے لہذا وہ اپنے سیاق وسباق کے ساتھ ان الزامات کی وضاحت کریں گے۔ اس سے پہلے بھی ہم نے علی مرزا صاحب کی علماء کے بارے ایک ویڈیو شیئر کر کے ان کی زبان پر انہیں توجہ دلائی تھی کہ جس میں وہ علماء کو کہہ رہے تھے کہ میں ”لا کے تہاڈے ہتھ وچ پھڑا دیاں گا“ یعنی تمہاری شلوار اتار کر تمہارے ہاتھ میں پکڑا دوں گا۔ اور یہ بھی کہا کہ علماء کو اپنے حجروں میں بچے اور بچیاں دستیاب ہوتی ہے اور اس سے کوئی ایک مدرسہ بھی مستثنی نہیں، نعوذ باللہ۔

اب سیاق وسباق کے ساتھ ذرا علی مرزا کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ سلف کے ختنے چیک کرنے کا جو انہوں نے کہا ہے، وہ انہوں نے کہا تو ہے لیکن وہ پاکستان کے تناظر میں بات کی تھی کہ ہندو دہشت گرد مسلمانوں کی صفوں میں مولوی بن کر گھس جاتے ہیں، جمعے پڑھاتے ہیں۔ تو پاکستان میں جب ہم کسی کو کہتے ہیں کہ تمہارے ختنے چیک کرنے ہیں تو اسے برا نہیں لگنا چاہیے۔ اور برا تو اسے ہی لگے گا کہ جس کے ختنے نہ ہو۔ تو جو کتاب وسنت کی بات کرتا ہے، اس کے ختنے ہم چیک کیے بغیر اس کی بات مان لیتے ہیں۔ کتاب وسنت کی بات اگر شیطان کرے تو ختنے تو ہم اس کے بھی چیک نہیں کرتے۔ بڑی مہربانی ہے جی آپ کی اس عنایت کی کہ آپ نے سب مولویوں سے ختنے چیک کروانے کا مطالبہ نہیں کیا۔