ہمارے فاضل دوست جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے فوت شدگان یا غیر حاضر انبیاء اور اولیاء اللہ سے، پریشانی میں مدد مانگنے اور مشکل میں ان کی دہائی دینے کے بارے، بریلوی علماء کا موقف اپنی فیس بک وال پر کچھ ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
”جو مسلمان اللہ کے سواء کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ہو، اور نہ اولیاء کو متصرف بالذات سمجھتا ہو، نہ انکو تصور میں مستقل سمجھتا ہو بلکہ یہ سمجھتا ہو کہ اولیاء کرام اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اسکے اذن سے تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدے کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ہے، نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ہے۔“
اس موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر فوت شدگان یا غیر حاضر انبیاء اور اولیاء اللہ کو ”عبادت کا مستحق“ نہ سمجھا جائے تو ان سے مدد مانگنا جائز ہے اور یہ شرک نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ عبادت واستعانت ان کا حق نہیں ہے لیکن کی جا سکتی ہے بشرطیکہ عبادت واستعانت کو ان کا حق نہ سمجھے۔ یہ موقف قطعی طور کتاب وسنت کے خلاف اور شیطان کا دجل اور فریب ہے۔ مشرکین مکہ نہ تو اپنے بتوں کو زمین وآسمان کی تخلیق میں اللہ کا شریک قرار دیتے تھے اور نہ ہی انہیں مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھتے تھے بلکہ قرآن مجید انہیں مشرک اس لیے قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے بتوں سے استغاثہ اور استعانت کو اللہ کے تقرب کا ذریعہ یا اللہ کے ہاں سفارش سمجھتے تھےجیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
اس آیت میں شروع ہی میں اللہ عزوجل نے مشرکین مکہ کا عقیدہ بیان کر دیا کہ وہ بتوں کو مستقل بالذات فائدہ یا نقصان پہچانے والا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اللہ کے ہاں سفارشی تصور کر کے ان سے مدد مانگنے اور ان کی دہائی دینے کے قائل تھے جبکہ اللہ نے ان کے اس فعل کو شرک قرار دیا ہے۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے تلبیہ یوں پڑھا کرتے تھے:
اگر مشرکین مکہ کے اس تلبیہ میں غور کریں تو اللہ کا شریک ٹھہرانے میں انہوں نے کمال درجے کی توحید کا مظاہرہ کیا ہے کہ اے اللہ! اپنے شریک کا بھی تو ہی مالک اور جو اس شریک کے پاس ہے، اس کا بھی تو ہی مالک۔ یعنی اس شریک کا مستقل بالذات تو کچھ بھی نہیں، سب تیرا ہی تیرا ہے۔ اور یہی مشرکین مکہ کی توحید آج بدقسمتی سے برصغیر پاک ہند میں بریلوی طبقہ فکر کے علماء پیش کر رہے ہیں۔ چلیں! قرآن کے علاوہ سنت سے سمجھ لیتے ہیں کہ اس میں تفصیل زیادہ ہوتی ہے۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق ایک صحابی نے آپ کو کہا :
تو آپ نے جواب میں فرمایا:
اب کیا یہ صحابی آپ کو مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھتے تھے؟ کہ آپ نے ان کے اس قول کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کے برابر قرار دے دیا۔ سنن ترمذی کی ایک اور روایت میں ہے کہ غزوہ حنین سے واپسی پر صحابہ کا گزر ایک درخت “ذات انواط”پر سے ہوا کہ جس سے مشرکین برکت حاصل کرتے تھے تو بعض صحابہ نے عرض کی کہ آپ ہمارے لیے بھی فلاں بیری کے درخت کو “ذات انواط”کا درجہ دے دیں تو آپ نے جواب میں کہا کہ تم مجھ سے وہ مطالبہ کر رہے ہو جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کیا تھا جبکہ انہوں نے ایک قوم کو بتوں کا اعتکاف کرتے دیکھا تھا تو کہا تھا کہ
تو کیا فتح مکہ کے بعد بھی صحابہ سے یہ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ اس درخت کو مستحق عبادت اور متصرف بالذات سمجھ کر آپ سے یہ مطالبہ کر رہے تھے؟ ان واقعات میں قابل غور بات یہ ہے کہ آپ نے کیسے انہیں قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بنا کر انہیں اللہ کا بیان بنا دیا ہے۔ اب سب بریلوی دوست مل کر کہیں کہ اللہ کے رسول تو وہابی اور اہل حدیث تھے؟ کہ تمہارے بقول تو اتنی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر شرک کے فتوے تو صرف یہی لگاتے ہیں۔
پس فوت شدگان سے مدد مانگنا، چاہے وہ انبیاء ہوں یا اولیاء، اور ان کی دہائی دینا، انہیں اپنے نفع یا نقصان کا مالک سمجھنا، ان کو اس لیے پکارنا کہ ان کو پکارنے سے میری کوئی تکلیف یا غم دور ہو جائے گا یا مجھے کوئی خوشی اور نعمت مل جائے گی، چاہے انہیں مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھے یا نہ سمجھے، یا غائب یعنی جو زندہ تو ہوں لیکن پاس موجود نہ ہوں، ان سے مدد مانگنا اور ان کی دہائی دینا جیسا کہ حضرت علی یا شاہ عبد القادر جیلانی وغیرہ کی دہائی دینا یا انہیں مشکل کشا سمجھ کر ان سے مدد مانگنا، اور حاضر سے ایسی مدد مانگنا کہ جس کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو مثلاً اس سے بیٹا مانگنا وغیرہ، شرک اکبر ہے اور ایسا کرنے والے دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے کہ یہی وہ شرک ہے جو مشرکین مکہ کا شرک تھا، جو قوم نوح کا شرک تھا بلکہ تمام انبیاء کی قوموں کا شرک یہی تھا اور یہی وہ شرک ہے کہ جس کے رد میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔