بہت سے دوست احباب اس حوالے سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا مساجد کو بند کر دینا چاہیے تو میری ذاتی رائے یہی ہے کہ اس وقت بیماری کی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ آپ مساجد کو بند کر دیں۔ باقی مساجد میں آذان ہو اور جس کا دل مطمئن ہے، وہ مسجد میں جا کر نماز پڑھ لے کہ بہت سے اہل علم کا فتوی موجود ہے۔ اور جس کا دل مطمئن نہیں ہے، وہ گھر پر جماعت کروا لے کہ بعض اہل علم کا یہ بھی فتوی موجود ہے۔ تو جو مسجد میں نماز کے لیے جائیں تو وہ مزید احتیاط یہ کر لیں کہ نماز پڑھ لیں البتہ مصافحہ نہ کریں، اور جس کو چھینک یا کھانسی وغیرہ آئے تو اس کو ممکن حد تک روکنے کی کوشش کرے، اور اگر پھر بھی آ جائے تو اپنا بازو اپنے منہ کے سامنے رکھ لے۔ اور نماز سے گھر واپسی پر ہاتھ دھوںے کا اہتمام کر لے۔ اور اگر اس کو نزلہ و زکام یا کھانسی ہے تو پھر تو مسجد نہ جائے، بالکل بھی نہ جائے۔ اور ایسے شخص کی مسجد حاضری پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے تا کہ وباء نہ پھیلے۔
تو یہاں مسئلے دو ہیں؛ ایک مسجد کو بند کرنا جیسا کہ یونیورسٹیز اور سکولز کالجز کو کیا گیا ہے تو ہماری رائے میں فی الحال وہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مساجد میں لوگوں کی حاضری اپنی مرضی سے ہوتی ہے، وہ اس کے پابند نہیں ہوتے۔ لہذا کوئی جانا چاہتا ہے تو اسے جانیں دیں اور جو نہیں جانا چاہتا تو اس پر فتوے نہ لگائیں۔ یہ مسئلہ اجتہادی ہے لہذا ہر دوسرے فریق کو سپیس دیں۔
البتہ اگر ریاست وباء کے تیزی سے پھیلاؤ کے پیش نظر مکمل لاک ڈاؤن کر دیتی ہے کہ ایئر پورٹس، ریلوے اسٹیشنز، بس اسٹیشنز، ریسٹورینٹس اور شاپنگ مالز وغیرہ بھی بند کر دیے جاتے ہیں تو پھر مساجد کو بھی محدود اور متعین عرصے کے لیے بند کیا جا سکتا ہے اور اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب