غیر شادی شدہ بچوں اور بچیوں کی باتیں سنو تو یقین مانیں خوف آتا ہے کہ کس تخیلاتی دنیا میں رہتے ہیں اور اس تخیل کی دنیا کے پیدا کرنے میں سارا کردار میڈیا یعنی فلم انڈسٹری کا ہے۔ لڑکا ہے تو اس کا خیال یہ ہے کہ شادی کے بعد بس ایک خادمہ ہاتھ آ جائے گی کہ جو صبح سے شام تک اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہے گی، مزے مزے کے کھانے کھانے کو ملیں گے، خوب عیاشی ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اور لڑکی ہے تو وہ یہ خواب دیکھ رہی ہے کہ شادی کے بعد ایک ایسا خزانچی ہاتھ آ جائے گا جو صبح سے شام اس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کو اپنے لیے فخر جانے گا۔ شوہر کی صورت میں ایک اے۔ٹی۔ایم (ATM) کارڈ مل جائے گا اور ڈھیر شاپنگ ہو گی، دل کھول کر، وغیرہ ۔ اللہ کے بندو! اس تخیل (fantasy) سے نکلو۔ شادی ایک ذمہ داری کا بندھن ہے، مرد کے لیے بھی اور عورت کے لیے بھی۔ اس ذمہ داری کو ادا کیے بغیر یہ ایک مہینہ بھی نہیں چل سکتا۔ شادی کی صورت میں عیاشی کا تصور صرف فلموں میں ہوتا ہے جبکہ حقیقی زندگی میں تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے یہ بھی ہے کہ شوہر کو ناشتا خود سے بھی بنانا پڑتا ہے اور بیوی کو میک اپ کا سامان خریدنے کے لیے خود کے پیسے بھی لگانے پڑتے ہیں۔
شادی ایجاب وقبول کا نام ہے اور ایجاب عربی زبان کا لفظ ہے کہ جس کا معنی واجب کرنا ہے۔ ہمارے ہاں مرد حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ قبول کا معنی ہے کہ ہم نے لڑکی قبولی ہے۔ بلکہ قبول وہ کیا ہے کہ جس کا ایجاب ہوا ہے یعنی جو تم پر واجب کیا گیا ہے۔ اور واجب کیا گیا ہے؟ وہ لڑکی کی ذمہ داری ہے۔ لڑکی کا والد یا سرپرست یہ کہتا ہے کہ یہ لڑکی اب تک میری ذمہ داری میں تھی یعنی اس کا نان نفقہ، اس کی حفاظت وغیرہ۔ اب میں اس لڑکی کی ذمہ داری تم پر واجب کرتا ہوں، کیا تمہیں یہ ذمہ داری قبول ہے؟ تو وہ اسے قبول کر لیتا ہے۔اب ذمہ داری کا ذکر تو نہ نکاح کروانے والے مولوی صاحب کے علم میں ہے اور نہ ہی دلہا کی معلومات میں اور قبول قبول کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ اور جب ذمہ داری کندھوں پر آن پڑھتی ہے تو پھر پوچھتے ہیں کہ اسے شادی کہتے ہیں؟ اس سے تو کنوارے ہی بھلے تھے۔ تم نے صرف بیوی نہیں قبولی، اس کا خاندان بھی قبولا ہے لہذا ان کی خدمت کرو۔ اور لڑکی نے بھی صرف لڑکا نہیں قبولا، اس کا خاندان بھی قبولا ہے لہذا ان کے کام آؤ۔ نہیں مانتے تو نہ مانو، سسرالی خود ہی منوا لیں گے۔