فیس بک اور واٹس ایپ کی وجہ سے دینی طبقے اور خاص طور علماء، مذہبی اسکالرز اور داعیان دین کا عوام الناس سے انٹرایکشن بڑھ گیا ہے۔ جب انٹرایکشن بڑھتا ہے تو مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ بعض خواتین کو شکایت ہے کہ فیس بک یا واٹس ایپ پر اہل علم سے مذہبی اور دینی مسائل میں رہنمائی لی جائے تو بعض شادی کے لیے پرپوز کر دیتے ہیں کہ جس وجہ سے نہ صرف ان سے رابطہ منقطع کرنا پڑتا ہے بلکہ کسی سے بھی رابطہ کرتے ہوئے یہی خدشہ رہتا ہے کہ کہیں پرپوز ہی نہ کر دے۔ اس میں زیادہ اندیشہ مطلقہ، خلع یافتہ یا بیوہ خاتون کو رہتا ہے کہ نکاح طلاق سے متعلق دینی مسئلہ پوچھنے پر اسے پروپوزل ہی نہ آ جائے۔

یہ بات درست ہے کہ عوام الناس بعض علمائے کرام، داعیان دین اور محققین کے علمی، دعوتی اور تحقیقی کام سے متاثر ہو کر ان سے مسائل میں رہنمائی لینا چاہتے ہیں لیکن یہ متاثر ہونا ایسا نہیں ہوتا کہ جس سے کسی عالم دین، داعی یا محقق کو کسی قسم کی غلط فہمی ہو۔ دیکھیں، ایک اچھا عالم دین فاضل درس نظامی ہوتا ہے۔ اگر اس سے کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر مسائل پوچھنا شروع کر دے تو دونوں کا سوشل اسٹیٹس برابر نہیں۔ بلاشبہ وہ ایم بی بی ایس دین کو پسند کرتی ہو گی تبھی تو مسائل میں کسی عالم دین کی طرف رجوع کرتی ہے لیکن اگر ایم بی بی ایس کو لائف پارٹنر کے طور کوئی مذہبی آدمی پسند کرنا ہو گا تو وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسا سوشل اسٹیٹس دیکھے گی کہ انسان کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ ہر انسان اپنے سے اوپر کی طرف دیکھتا ہے۔

تو ڈاکٹر، وکیل، سائیکالوجسٹ، پروفیسر اور مذہبی اسکالر ہمارے معاشرے کے ایسے شعبے ہیں کہ جن سے لوگ اپنے دنیوی اور دینی مسائل میں بہت زیادہ مشورہ لیتے رہتے ہیں۔ فرائیڈ کے بارے یہ بات بہت سے سوانح نگاروں نے لکھی ہے کہ اس نے اپنے کلائنٹس کے ساتھ گند نہیں مارا جبکہ اور بہت سے سائیکالوجسٹس ایسا کر لیتے تھے۔ تو مجھے اس سے نظریاتی اختلاف کے باوجود اس کی یہ بات بہت بھاتی ہے کہ وہ اخلاق کے کسی معیار پر کھڑا تھا۔ تو ایک لڑکی کو اپنے سپروائزر سے دو چار سال رہنمائی لینی ہے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کے لیے، اور اگر اس کا سبجیکٹ اسلامک اسٹڈیز ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ ان کے علم سے متاثر بھی ہو جائے لیکن اس تاثر کا کوئی دوسرا مطلب لینا درست نہیں ہے۔

تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا کلائنٹ یا سائل یا فالوور بھی آپ سے بہت زیادہ سوال وجواب کر رہا ہو اور اس میں اس سے بھی بے احتیاطی ہو رہی ہو لیکن اس کے باوجود ایک مذہبی اسکالر یا اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنے سے مشورہ لینے والی یا سوال پوچھنے والی کسی خاتون کو پرپوز نہ کرے کہ یہ اخلاقا درست نہیں۔ اگرچہ شرعی یا قانونی پہلو سے کسی کو پیغام نکاح بھیجنے میں حرج نہیں اور اگلے کے انکار میں بھِی حرج نہیں لیکن اخلاقا یہ درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ عام طور خواتین کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ان کے سوال وجواب کی صورت میں انہیں پرپوزل آ جائے گا۔

تو یہ بات صرف مذہبی اسکالرز کے لیے نہیں بلکہ ڈاکٹر، سائیکالوجسٹ، پروفیسر اور وکیل جیسے سب پیشوں کے لیے بھی ہے کہ اپنا اخلاقی معیار اور ساکھ بنائیں۔ آپ کو پہلی، دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کرنی ہے تو اپنے کانٹیکٹس میں کریں۔ سوشل میڈیا، فیس بک اور واٹس ایپ کے فالوورز یا کلائنٹس کی رہنمائی فی سبیل اللہ کریں اور اسے فی سبیل اللہ ہی رہنے دیں۔ یہ نہ ہو کہ غیر شادی شدہ بچوں اور بچیوں کی شادیوں کے لیے فی سبیل اللہ رشتہ سنٹر کھولیں اور اپنی دوسری اور تیسری شادی کر کے رشتہ سنٹر بند کر دیں۔ تو معلوم ہو کہ وہ فی سبیل اللہ کام صرف اپنے آپ کو فی سبیل اللہ فائدہ پہنچانے کے لیے تھا۔ تو لوگ آپ کے مذہبی کام اور دینداری کی وجہ سے قدر کرتے ہیں، اتنا ہی کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کو لائف پارٹنر بنانا چاہیں گے۔