ایک دوست نے سوال کیا کہ انہیں ایک سال پہلے پنشن میں کوئی دس بارہ لاکھ روپے ملے اور اب ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے اور انہی پیسوں سے گزارہ چل رہا ہے جو کہ تیزی سے کم ہو رہے ہیں، تو کیا ایسے میں ان پر زکوۃ دینا فرض ہے جبکہ زکوۃ بھی تقریباً25 ہزار بن رہی ہے؟ میں نے کہا زکوۃ تو فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ مفتی صاحب نے ایک حیلہ (trick) بتلایا ہے، آپ کی اس بارے رائے درکار ہے۔ میں نے کہا کہ جی! عرض کریں۔

انہوں نے ایک بہت بڑی جامعہ کے مفتی صاحب کا نام لیا کہ انہوں نے کہا ہے کہ زکوۃ تو فرض ہے لیکن آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ کسی مستحق زکوۃ کو زکوۃ کی رقم ادا کر دیں تو آپ کی زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ اب وہ شخص کہ جس نے زکوۃ وصول کی ہے، اس رقم کا مالک ہے، وہ اس میں جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ اور اب وہ زکوۃ وصول کرنے والا اس زکوۃ کی رقم میں سے ایک دو ہزار رکھ لے اور باقی رقم آپ کو ہبہ کر دے یعنی بطور گفٹ دے دے۔ میں نے تو سنتے ہی کہا کہ یہ تو بالکل جائز نہیں ہے، یہ تو زکوۃ کے مقاصد کے خلاف ہے۔

بعض مفتیوں نے فرائض سے بچنے اور حرام کو حلال بنانے کے لیے کیسے کیسے حیلے (tricks) ایجاد کر رکھے ہیں تو اس کا اندازہ اس حیلے سے بھی ہو سکتا ہے کہ ایک خاتون کے پاس اگر 200 تولے زیور ہے اور وہ اس کی زکوۃ سے بچنا چاہتی ہے تو زکوۃ تو سال بعد فرض ہوتی ہے، لہذا وہ خاتون گیارہ ماہ بعد اپنے خاوند کو کہے کہ میں نے یہ سونا تمہیں ہبہ یعنی گفٹ کیا۔ اب وہ خاتون اس سونے کی مالک نہ رہی لہذا اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے اور خاوند آج کے دن میں مالک بنا ہے لہذا خاوند پر زکوۃ سال بعد فرض ہو گی۔ اور خاوند گیارہ ماہ بعد اپنی بیوی کو وہی سونا دوبارہ ہبہ یعنی گفٹ کر دے۔ اب قانونی اور فقہی نقطہ نظر سے زکوۃ فرض نہیں ہوئی ہے۔

اگر میاں بیوی زکوۃ سے بچنے کے لیے ایسا کر بھی لیں تو پھر بھی اس مال پر زکوۃ فرض ہے کہ یہی ”مقاصد شریعت“ کے مطابق ہے۔ اور جہاں تک ایسے مدرسوں کا تعلق ہے کہ جن کے منتظمین مفتی حضرات غیر شرعی حیلوں پر مبنی فتوے دیتے ہیں تو ان مدرسوں پر زکوۃ فرض ہے کیونکہ یہ مدرسے ایک قسم کا ”مال تجارت“ ہیں اور ان مدرسوں کی حیثیت ذرائع پیداوار (means of production) کی سی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید نے یہودی علماء کے بارے کہا ہے کہ اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت کے بدلے بیچ دیتے ہیں تو وہ ان کا کاروبار تھا کہ پیسے لے کر شریعت کو بدل دیا اور یہ ان کا کاروبار ہے جو کہ یہودی علماء سے زیادہ منظم ہے کہ چندے کسی اور سے لیے اور شریعت کو کسی اور کے لیے بدل دیا۔ اللہ کے رسول ﷐ کا فرمان ہے کہ یہودیوں کی طرح مت بن جانا کہ جنہوں نے چھوٹے چھوٹے حیلوں کے ذریعے حرام کو حلال بنا لیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب